جدائی کے دن اب گراں ہو گئے ہیں
کہ فرقت میں آنسو رواں ہو گئے ہیں
---------
محبّت پہ میں نے جو لکھے تھے نغمے
وہ لوگوں کے وردِ زباں ہو گئے ہیں
--------
دلوں میں جو الفت کے پودے لگائے
پلے خوب پل کر جواں ہو گئے ہیں
-----------
ہوئے دوست میرے ہی میرے مخالف
عدو کے مرے ہم زباں ہو گئے ہیں
--------------
مرے دل میں جن کے لئے چاہتیں تھیں
نہ جانے وہ کیوں بدگماں ہو گئے ہیں
-------------
بہت رعب جن کا تھا دنیا پہ ساری
وہ زیرِ زمیں بے نشاں ہو گئے ہیں
-----------
محبّت کو پا کر بہت خوش ہو ارشد
ترے پھر سے جذبے جواں ہو گئے ہیں
-------------

0
61