ہے اتنا غم کہ کسی کو بتا نہیں سکتا |
ستم یہ بھی ہے کہ تجھ سے چھپا نہیں سکتا |
یہ زندگی میری اس قدر کٹھن جو ہے |
کہ چاہ کر بھی خود کو ہسا نہیں سکتا |
جو گزری ہے مجھ پر میں ہی جانتا ہوں وہ |
کسی کو دل اب کچھ بھی بتا نہیں سکتا |
بچھڑ کے تجھ سے ہوا میں تبا ہ بھی ایسے |
کہ زندگی کا بھی ساتھ اب نبھا نہیں سکتا |
نکل گئے ہیں تری راہ سے بہت دور اب |
بڑھا دئے ہیں قدم تو ہٹا نہیں سکتا |
نا جانے کون سی ہم میں کمی رہی ہو گی |
ہمارا ساتھ بھی کوئی نبھا نہیں سکتا |
جی میں ہے آتا ہمارے جی بھر کے روئیں ہم |
ہے خوف دنیا کہ اشک اب بہانہیں سکتا |
قبول ہے مجھے قسمت کا فیصلہ ہر اک |
خدا سے جو گلا ہے وہ بتا نہیں سکتا |
معلومات