غزل
عدو ، مایوس صورت دیکھ کر کَس دے نہ آوازہ
کسی نے کھٹکھٹایا ہے ترا در ، کھول دروازہ
گناہوں سے مرے بڑھ کر ، تری بخشش ، دریں چہ شک
تری رحمت کا کر سکتا ہے کیسے کوئی اندازہ
الٰہی بخش دے میری خطائیں ، جانتا ہے تُو
مجھے طاقت کہاں میں بھر سکوں گا ان کا خمیازہ
انہیں توفیق دے آپس میں مل بیٹھیں تری خاطر
کہ امّت کا تری ، بکھرا ہوا ہے دیکھ شیرازہ
حسیں صورت بنا کر دھوکہ دیتے ہیں گلی والے
کہاں پہچان پائیں گے ، مَلا چہرے پہ ہے غازہ
یہ تیرے نام لیوا ختم ہونے کو ہیں دنیا میں
تبہ ہوں گے نہ آئی تجھ سے گر کوئی کُمک تازہ
رہی بندی خدا کی ، آسیہ ، فرعون کے گھر میں
بنو مریم صفت طارق ، کہ عورت وہ تھی ممتازہ

0
5