کہاں کہاں سے وہ نکلا کہاں کہاں پہنچا |
جہاں پہنچنا تھا اسکو وہاں وہاں پہنچا |
نیا شغف نیا تیور ہے منصفی کا اب |
گواہی دینے عدالت میں بے زباں پہنچا |
ترےحضور میں پہنچی نہیں صدا میری |
مرےجگرسےنکل کرمگر دھواں پہنچا |
یقینِ ذات تو تھک ہار کر پلٹ آیا |
مگر پہنچ سکاتجھ تک تو بس گماں پہنچا |
زباں نےحالِ غمِ دل کہا نہیں کشفی |
سناہے پھربھی جہاں تک مرابیاں پہنچا |
. ڈاکٹر رضوان کشفی |
معلومات