گھر بُلا کر کبھی اس نے مجھے پرکھا بھی نہیں |
میں نے اس رستے پہ جانا ابھی سیکھا بھی نہیں |
گھر کے سب کھڑکیاں دروازے کُھلے رکھے ہیں |
منتظر ہوں کسی دیوار پہ لکھا بھی نہیں |
مہرباں ہو گی کبھی تو مری قسمت مجھ پر |
مجھ کو امید ہے گو ہاتھ میں ریکھا بھی نہیں |
تُو ہی ہر نام کے معنی میں نظر آتا ہے |
پر کوئی نام ترے نام پہ رکھا بھی نہیں |
منتظر رہتا ہے دل میں ہی تمہارے جو وجود |
تُم نے اس ذات کو در کھول کے دیکھا بھی نہیں |
طارق احساس کی دولت سے ہوئے مالا مال |
اشک جاتے ہیں چھلک یوں ابھی برکھا بھی نہیں |
معلومات