ذکرِ علی سے دل کو مرے وہ خوشی ملی
ایسی خوشی جہاں میں نہ پھر دوسری ملی
دینِ خدا کو خم میں نئی زندگی ملی
پھر کربلا میں اسکو بقاء دائمی ملی
ہمکو شعور و علم و یقیں آگہی ملی
ذکرِ علی سے ہمکو نئی روشنی ملی
کرنا ہی چاہتا تھا میں مدح علی رقم
ہاتھوں کو جوڑے لفظوں کی اک صف کھڑی ملی
صدیوں سے کر رہا ہے سفر ذکر مرتضیٰ
ہر بار فکر نو کو نئی روشنی ملی
ذکرِ علی کی شرط پہ مرسل کو روزِ خم
منبر ملا غدیر کا اور ذاکری ملی
کعبے کو جس طرح سے ملی تھی اسی طرح
دینِ خدا کو خم میں نئی زندگی ملی
اترائے پھر رہے ہیں وہ چھوٹی سی عید پر
ہے ناز ہمکو عید بھی سب سے بڑی ملی
ہر بار مشکلوں میں پُکارا تمہارا نام
ہر بار مشکلوں سے مفر يا علی ملی
فرصت کہا ہے ہمکو کسی اور کام کی
حیدر کے در کی جب سے ہمیں نوکری ملی
شاہ نجف سے مجھکو یہ انعام چاہیے
ہو میری قبر روضے سے بالکل ملی ملی
ورثے میں ہمکو اپنے پدر سے خدا کا شکر
غم کربلا۔ کا، حبِ علی، شاعری ملی

0
16