شامیں ہیں میری سوگروار ہنوز
نہ ملا کوئی غم گسار ہنوز۔
دمِ رخصت سے ہے مجھے درپیش
حادثہ چشمِ اشکبار ہنوز
رشتہ تعمیرِ بے اساس تھا وہ
نہ رہا تجھ پہ اختیار ہنوز
جانے کس پیش و پس کا ہے صلہ تُو
تجھ سے مل کے ہوں شرم سار ہنوز
رشتۂِ دل جو چند روز کا تھا
اس لیے سر ہے زیرِ بار ہنوز
تری دولت سے جاہ و حشمت ہے
اور میں غم سے ہوں مالدار ہنوز
تیغ بازی ہے مشغلہ تیرا
اور میں ہی بنا شکار ہنوز
چوم کر وہ ترا پیالۂِ ناف
نشے میں ہیں یہ بادہ خوار ہنوز
حسن، دولت کہ دونوں سے تاریخ
ہوتی آئی ہے تار تار ہنوز
اور تو کیا، بچھڑ کے ہے کوئی
زار، نادار، بے قرار ہنوز
بس طبیعت بہلنے کو، تری
ہے توجہ پہ انحصار ہنوز
تیرے جانے کے بعد تیری یاد
بن کے یاں اڑتی ہے غبار ہنوز
مٹ گیا رشتہ ہر کسی سے مگر
ہے اداسی سے برقرار ہنوز
زندگی چار دن کی بات تھی صرف
نہیں لیکن کچھ اختصار ہنوز
آرزو، تیری آرزو واللہ
زیبؔ کو کر رہی ہے خوار ہنوز

0
106