اے وجہِ تب و تابِ جہاں روحِ دوعالم |
اے کاشفِ اسرارِ نہاں صلِ وسَلَم |
اے صاحبِ الطاف و کرم والیٔ کونین |
بھیگے ہیں کئی بار تری یاد میں دو نین |
بہتی ہے رگوں میں تری چوکھٹ کی غلامی |
سینے میں دھڑکتا ہے ترا اسمِ گرامی |
دے عطرِ مضامینِ منور مجھے شاہا |
لکھنا ہے محبت سے ترا نور سراپا |
دستار کے ہر پیچ میں قرنوں کی عناں ہے |
سر، غرفۂ توحید ہے تلخیصِ جہاں ہے |
گیسو ہیں کہ واللیل کی تفسیرِ مکمل |
پیشانی ہے خورشیدِ سحر روشن و اجمل |
ہے خواہشِ مشکِ ختنی تیرا پسینہ |
پیشانی پہ جیسے ہو درخشندہ نگینہ |
انوار کی رم جھم میں نہائے ہوئے گیسو |
تقدیس کے شانہ سے سنوارے ہوئے گیسو |
چہرہ ہے ترا مہبطِ انوارِ الٰہی |
دیتے ہیں یہ،والشمس ،کے الفاظ گواہی |
ابرو ترے قوسین کی قربت کے نشاں ہیں |
اور گوش ترے سامعِ فریادِ جہاں ہیں |
پلکیں ہیں جو مازاغ کی آنکھوں پہ مکیں ہیں |
آنکھیں ہیں جو دیدارِ الٰہی کی امیں ہیں |
چشمانِ کرم قلزمِ تقدیس کے گوہر |
عارض ترے انوار کی تنزیل کے محوَر |
دندان تراشے ہوئے ہیروں کی قطاریں |
شیدائے دہن رہتی ہیں گل پوش بہاریں |
آواز میں فردوس کے جھرنوں کا ترنم |
لب، نکہتِ گل، قاسمِ خیراتِ تبسم |
ہونٹوں کے تقدس پہ فدا عالمِ ملکوت |
فصحائے عرب عسلِ بلاغت سے ہیں مبہوت |
باتیں ہیں کہ آیات کے اظہار کا درپن |
لہجہ ہے ترا عسلِ محبت سے مزین |
ملتی ہے تسلی تری شیریں سخنی سے |
ہر گھاؤ بھرا تیرے لعابِ دہنی سے |
اے ربِ دوعالم کی زباں بولنے والے |
اقوال ترے کان میں رس گھولنے والے |
بازو ہیں یتیموں کی یتیمی کا سہارا |
طوفان میں تھامیں تو مقدر ہو کنارا |
عظمت وہ ترے دستِ کرم بار نے پائی |
عالم ہے کفِ نور پہ اک دانۂ رائی |
انگشتِ کرم کر دے اگر ایک اشارا |
بن جائے گا بگڑا ہوا ہر کام ہمارا |
سینہ ہے کہ افراطِ طہارت سے ہے زریاب |
رنگت ہے تری دودھ میں آمیزشِ زر ناب |
دم بستہ مراتب تری چوکھٹ پہ پڑے ہیں |
جھنڈے ترے معمور کی چھت پر بھی گڑے ہیں |
اے باعثِ الطافِ الہ رونقِ حرمین |
معراج ہے میری تو بس اک بوسۂ قدمین |
کندہ ہے تری پشت پہ اک مہرِ نبوت |
پرتو ہے اسی کا روے مہتاب کی طلعت |
اک نور ہے پرنور سراپا سے ہویدا |
خوشبو ہے ترے مشک فشاں جسم کی شیدا |
اجرامِ فلک گرد تری راہ گزر کی |
رفعت بھی قدم بوس ہے باندی ترے در کی |
معراج سفر اور سواری تری رف رف |
تیرے ہی سبب نوعِ بشر ہو گئی اشرف |
سدرا ہے پڑاؤ ترا قوسین ہے منزل |
ہے زیرِ قدم زہرہ و ناہید کی جھلمل |
افلاک تری رفعتِ نعلین پہ قرباں |
ہے عرش ترے تلوۂ نازک سے فروزاں |
نعلین کی ضو کاہکشاؤں سے عیاں ہے |
تلووں سی چمک روئے قمر میں بھی کہاں ہے |
تو صاحبِ معراج ہے تو عرش نشیں ہے |
ہمسر ترا کونین میں کوئی بھی نہیں ہے |
نوشابۂ دیدار کا اک جام پلا دے |
اے رونقِ کونین مرا خواب سجا دے |
معلومات