یہ خوش گمانی تھی کِردار جاندار ہوں میں |
مگر یہ سچ ہے کہ بندہ گناہگار ہوں میں |
گوارا اہلِ چمن کو نہیں ہے میرا وجود |
وہ اِس لیئے بھی کہ پھولوں کے بیچ خار ہوں میں |
میں اُٹھ کے گاؤں سے آیا ہوں، شہر کے لوگو! |
کسی کو راس نہ آیا ہوں ناگوار ہوں میں |
کسی غریب کے تن کا اگر لباس کہو |
تو ایسے دورِ گرانی میں تار تار ہوں میں |
ہتھیلی میری تو تقدیر سے رکھی خالی |
گُماں دیا ہے کہ تقدیر کا سوار ہوں میں |
کسی کا حق تھا خریدی ہے میں نے آسامی |
کئی دنوں سے اسی غم سے اشکبار ہوں میں |
پُجاری پیٹ کے ہیں گر یہ آج کے حاکم |
تو بیکسوں کی، غریبوں کی اک پُکار ہوں میں |
دیا ہے ووٹ جو اِن بے ضمیر لوگوں کو |
میں اپنے فعل پہ نادِم ہوں، شرمسار ہوں میں |
بلکتا بچوں کو فاقوں میں دیکھتا ہوں رشیدؔ |
مُجھے تو لگتا ہے اِس سب کا ذمہ دار ہوں میں |
رشید حسرتؔ |
معلومات