ترا دل کیوں سمجھتا ہے کہ دنیا جاودانی ہے |
تماشہ کچھ دنوں کا ہے یہ سب کچھ اک کہانی ہے |
مرے بھائی سمجھ جاؤ! یہ دنیا کھیل فانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
خدا سے کیوں نہیں ڈرتا، زمیں پر کیوں اکڑتا ہے |
کوئی کچھ کر نہیں سکتا، خدا جب بھی پکڑتا ہے |
مگر مٹی کے پتلے کو بہت ہی خود گمانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
اسی دنیا کے اندر ہی کبھی فرعون رہتا تھا |
نہیں کوئی یہاں مجھ سا، سبھی لوگوں سے کہتا تھا |
مگر اب نام بھی اس کا، تُو عبرت کی نشانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
کبھی ہاتھی کے لشکر پر خدا کنکر گراتا ہے |
کبھی نمرود جیسوں کو فقط مچھر ستاتا ہے |
مگر توحید کے اندر ہمیشہ کامرانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
خدا جانے کہ کس لمحے تجھے بھی اک صدا آئے |
تری چوکھٹ پہ کس لمحے فرشتہ موت کا آئے |
یہ جاں رب کی امانت ہے، یہ جاں اک دن تو جانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
زمیں پر زلزلہ ہوگا، قیامت کا دن آئے گا |
ملامت تجھ کو ہوگی جب تجھے پوچھا یہ جائے گا |
گزاری کیسے کاموں میں تُو نے اپنی جوانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
خدا واحد کو سجدہ کر، اسی سے کر دعائیں بھی |
اسی سے مانگ مشکل میں، اسی کو دے صدائیں بھی |
کہ دنیا کے ہر اک کونے پہ اس کی حکمرانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
تو تلواریں اٹھا پھر سے نہ ڈر کافر درندوں سے |
مدد دے گا ترا مالک تجھے اڑتے پرندوں سے |
تجھے اب خوف کیسا ہے! مدد جب آسمانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
محبت کر تو دنیا سے نہ اس دنیا کے بندوں سے |
اسامہ بچ کے رہنا تم سبھی دنیا کے رنگوں سے |
محبت کر خدا سے تو، محبت گر نبھانی ہے |
سفر یہ چار دن کا ہے پھر آخر موت آنی ہے |
معلومات