آج تو ہم ہو کر تیار بیٹھے ہیں
لگتا ہے وہ پسِ دیوار بیٹھے ہیں
تَشنگی رگ و پے میں بھی اتر چکی
پینے کو شربتِ دیدار بیٹھے ہیں
پی کے مے دِید تیری بَزْم سے اٹھے
وہ سبھی عاشق اب سرشار بیٹھے ہیں
لذتِ مے سے وہ نا آشنا ہیں جی
ہاتھ میں جو لِیے تلوار بیٹھے ہیں
جی صد افسوس ہے ان واعظوں پر جو
مے کشوں سے ہو کر بیزار بیٹھے ہیں
ساقی تو پلا ان کو بھی شرابِ دید
جو بھی مدت سے شب بیدار بیٹھے ہیں

70