| درد کی بہتاتوں سے اندیشہ ہے! |
| آنکھوں کی برساتوں سے اندیشہ ہے! |
| روح میں ہیں چھید کرتے رات دن |
| دل کے ان جذباتوں سے اندیشہ ہے! |
| کٹ گیا یونہی دسمبر اب کی بار |
| جنوری کی راتوں سے اندیشہ ہے! |
| کون دیتا ہے دغا اس دنیا میں |
| سب کو اپنی ذاتوں سے اندیشہ ہے! |
| لوٹ آنا اس کا ممکن ہی نہیں |
| مجھ کو اپنی باتوں سے اندیشہ ہے! |
| شوخ جی لے جائیں جانے کس طرف |
| عشق کے سب گھاتوں سے اندیشہ ہے! |
معلومات