چرچۂ دل میں تیرا ذکر بار بار کتنا تھا
خامشی میں چھپ گیا وہ گفتگو کا پیار کتنا تھا
یاد کی دیوار پر تصویر سی لٹکی رہی
ہر نظر کو گھورتی وہ اشک کا غبار کتنا تھا
ہم نے تیری راہ تک کر عمر بھر کاٹ دی
پر تجھے یہ بھی نہ معلوم، انتظار کتنا تھا
بزم میں بیٹھا رہا میں مسکرا کر دیر تک
اور دل میں چل رہا تھا اک مزار کتنا تھا
خواب کی پرچھائیوں میں روز تُو ملتا رہا
اور ہر خوابِ نکھر میں انکسار کتنا تھا
آج بھی حیدرؔ وہی خاموشیاں کہتی ہیں کچھ
تیرے ہونے کا ہمارے اختیار کتنا تھا

0
7