| جو بھی ہے مجھ کو اپنی ذات سے ہے | 
| میرا گھر دُور کائنات سے ہے | 
| واسطہ تو پکڑ کا باعث ہے | 
| چھوٹ اگر ہے تو بس نجات سے ہے | 
| بات میں ورنہ کوئی بات نہیں | 
| بات جو بات ہے سو بات سے ہے | 
| دوزخ و خلد دونوں دامِ دوام | 
| موت زِچ محبسِ حیات سے ہے | 
| آدمی ورنہ مثلِ عنقا ہے | 
| ذات کا پیرہن ثبات سے ہے | 
| عقل ہے محوِ جلوۂ افکار | 
| مسئلہ دل کی واردات سے ہے | 
| میں ہی تنہاؔ! نہیں اداس یہاں | 
| وہاں افسردہ وہ بھی رات سے ہے | 
 
    
معلومات