تمہاری یاد دل سے اب کسی دم چھو نہیں سکتی
یہ چنگاری ہے دل کی، راکھ بن کر سو نہیں سکتی
محبت دل کی گہرائی میں رہتی ہے صدیوں تک
یہ سود و زَر کی مانندِ تجارت ہو نہیں سکتی
یہاں ہر مسکراہٹ کے پسِ پردہ ہے سو خنجر
یہاں خوابوں کی بستی میں صداقت ہو نہیں سکتی
جسے تم دوست کہتے ہو، وہی خنجر لیے بیٹھا
یہ دنیا اتنی سادہ، بے شرارت ہو نہیں سکتی
اگر وہ بزمِ مے میں ہے تو چلتے ہیں رفاقت سے
کہ تنہائی میں اب ہم سے زیارت ہو نہیں سکتی
قسم اُس عشق کی، جس نے تمہیں رسوا کیا آخر
یہ سِرّ اب بھی چھپا ہو، پر حقیقت ہو نہیں سکتی
اے سبدرؔ، عشق کو دنیا کا پیمانہ نہ کر ہرگز
یہ دل کی چیز ہے، دل کی، تجارت ہو نہیں سکتی
َ

0
27