تم کو اچھا نہیں لگتا ہوں میں
دل کا سچا نہیں لگتا ہوں میں
میر و غالب تھے سخنور اچھے
ویسے بونا نہیں لگتا ہوں میں
جھانکو تو دوستوں دل کے اندر
دل سے روکھا نہیں لگتا ہوں میں
دیکھو آنکھوں کے یہ ڈارک سرکل
اُن سے بچھڑا نہیں لگتا ہوں میں
سرخ لب گال گلابی کیوں ہیں
ان کا جھوٹا نہیں لگتا ہوں میں

150