| فسانے اپنے جو اقدار کے ہیں |
| تمدن اور وہ معیار کے ہیں |
| حسد والوں سے بھی الفت نبھائی |
| "عدو قائل مرے ایثار کے ہیں" |
| ترے کُوچہ میں رکھتے ہم قدم ہیں |
| بہانے رہتے بس دیدار کے ہیں |
| ملی ہو خواب کی تعبیر جیسے |
| اشارے جب کئے اقرار کے ہیں |
| بڑا نقصان اپنوں سے ہوا ہے |
| نشانے جو لگے غدار کے ہیں |
| نگاہیں پھیر لیں کیوں عیش سے اب |
| سبب دنیا سے وہ بیزار کے ہیں |
| زباں ناصؔر ہے قابُو گر تو پائے |
| وہی غازی ہُوتے گفتار کے ہیں |
معلومات