تنہائی کی عادت ہو گئی ہے
اشکوں سے رفاقت ہو گئی ہے
اب ہنسنے ہنسانے کے دن تو گئے
راحت اب اذیت ہو گئی ہے
صلح اچھائی ہے برائی ہو ئی
اس سے تو عداوت ہو گئی ہے
یہ محبت کیسے کرے گا کوئی
اب عاشقی تہمت ہو گئی ہے
مر جانے کے بعد جلایا نہیں
تھوڑی سی رعایت ہو گئی ہے
مرے قاتل کے لیے شیخ جی کو
جنت کی بشارت ہو گئی ہے
غمِ جہاں میں اب تجھ کو حسن
رونے کی تو عادت ہو گئی ہے

0
68