لمحۂ ناگوار باقی ہے
آخری اس کا وار باقی ہے
نہ مسافر نہ منزلوں کے نشاں
اب فقط رہ گزار باقی ہے
وہ تو آ کر چلا گیا کب سے
اس کا اب انتظار باقی ہے
سانس بھی گن کے گر دیئے مجھ کو
کون سا اختیار باقی ہے
سو کے اٹھا تو لفظ بھول گئے
صرف لفظوں کی دھار باقی ہے

43