کاش مجھ سے وہ کچھ قریب ہو جائے
ہے عجب سا مگر عجیب ہو جائے
عیب جوئی بھی اک ندامت ہے
ایسے پر جو حبیب ہو جائے
عشق دنیا میں اک عنایت ہے
جس کسی کو نصیب ہو جائے
جب محبت سے ہے بھرا دل کو
پھر یہ کیسے رقیب ہو جائے
حکمرانوں کا حال ہے ایسا
تولہ ماشہ نصیب ہو جائے
کب کہا ہے جلال سے تم نے
میرے دل کا طبیب ہو جائے

0
6