میں پڑا ہوں ہند میں پر مرا دل وہاں گیا ہے
جہاں خاک بھی ہے سونا جہاں میرے مصطفی ہے
اے صبا تو جا کے کہنا مری بات مصفطی سے
مجھے بھی کبھی بلالےمرے دل کا آسرا ہے
اے امام کل پیمبر اے حسن کے نانا تم پر
مری ڈھڑکنیں نہیں بس مری جان بھی فدا ہے
میں مریض مصطفے ہوں مجھے لے چلو مدینہ
مرے اس مرض کی یاروں یہی ایک بس دوا ہے
جو مٹانا چاہتا تھا مرے پیارے مصطفے کو
ہے گواہ یہ زمانہ وہ حریف خود مٹا ہے
مرے ہم نشین یاروں کرو عشق مصطفے سے
کہ وصال خلد کا بس یہی ایک راستہ ہے
میں سناتا جاؤں نعتیں در مصطفے پہ یونسؔ
مرا دم وہیں پہ نکلے یہی میرا مدعا ہے

42