جس چہرے سے نظروں کو ہٹایا نہیں جا تا
اس چاند کو دنیا سے چھپایا نہیں جاتا
توڑا ہے اگر دل تو اکٹھے کرو ٹکڑے
یوں کانچ کو رستے میں بچھایا نہیں جاتا
وہ سنتے نہیں گر تو چلیں آنکھوں سے بولیں
چپ رہ کے تو اب شور مچایا نہیں جاتا
اپنوں کے لئے جان بھی حاضر ہے ہماری
روٹھے ہوئے دشمن کو منایا نہیں جاتا
اِخلاص تو چہرے سے اداؤں سے عیاں ہو
اندازِ محبّت تو پڑھایا نہیں جاتا
خوں دے کے شہیدوں میں جو طالع ہوئے شامل
قربانی کو ان کی تو بُھلایا نہیں جاتا
جو عہدِ وفا باندھ کے اب بھول گئے ہیں
کیا ان کو کبھی یاد کرایا نہیں جاتا
کہنے کو تو سب کچھ ہی تِرا اُس کا ہوا ہے
جب اُس نے کہا آؤ تو جایا نہیں جاتا
طارق مجھے قسمت سے یہ انعام ملا ہے
میں کیوں یہ کہوں پیار نبھایا نہیں جاتا

0
54