آمدِ سرکار سے ہیں جھومتے دونوں جہاں
وجد میں گردوں ہوا ہیں کیف میں یہ آسماں
مدحتیں مختار کی ہیں ساتھ ہے حمد و ثنا
استھاں ہیں مسرور تر ہیں رونقیں ان میں جواں
صد مبارک آمنہ ہے گود میں آیا یہ لال
جس نے خندہ کر دئے ہیں حشر تک سارے زماں
یہ مدینہ نور میں ہے آنے سے سرکار سے
کر رہے ہیں رشک جس پر خلق کے کون و مکاں
خیر سے ہے پُر فضا تشریف لائے مصطفیٰ
نبضِ ہستی آج تک خاطر نبی کی ہے رواں
کبریا کے کرم سے ہیں دلربا دافع بلا
آپ کے ہی فیض سے ہے زندگانی کا نشاں
اس ورودِ پاک سے کافور ہیں سب ظلمتیں
نور کی سرکار سے ہے نور والی داستاں
زد میں اُن کی تام ہیں آفاق کی ساری حدیں
چاہے گر میرا خدا، ہے روکتا چلتا زماں
پرتو حسنِ مصطفیٰ سے، این و آں کونین کی
نورِ حق سے ہے فروزاں، دہر کا کل آشیاں
رحمتِ دونوں جہاں محمود ذاتِ مصطفیٰ
جن کے صدقے کبریا سنتا ہے عاجز کی فغاں

14