تکبّر چھوڑ دیتے ، عاجزی کی کچھ نمُو ہوتی |
نہ یوں ناراض ہو جاتے ، اگر نرمی کی خُو ہوتی |
تعصّب طاق پر رکھ کر اگر آتے وہ میداں میں |
محبّت کی زباں میں کچھ ہماری گفتگو ہوتی |
ہمیں کہتے تو ملنے کے لئے خود ہم چلے آتے |
ہمیں بھی شوق تھا کچھ بات اُن سے رُو برو ہوتی |
تجسّس نے ہمیں گھر سے نکالا سیر کرنے کو |
کہاں ورنہ یہ دنیا دیکھنے کی آرزو ہوتی |
تصّور میں تمہارے حسن کی تصویر جو بھی ہے |
اُسے جب دیکھتے صورت وہی تو ، ہُو بہُو ہوتی |
مہک ماحول میں پاکیزگی کی وہ نظر آئی |
ہوا جاتے ہوئے اس کی گلی میں باوضو ہوتی |
اگر معلوم ہوتا تم کو ، کتنا پیار کرتا ہے |
تمہیں بھی اس کو پانے کی یقیناً آرزو ہوتی |
تمہیں طارق خدا کو ڈھونڈنے کا شوق ہے ، سُن لو |
وہ مل جاتا، اگر پانے کی سچی جستجو ہوتی |
معلومات