آرزو ئے وَصل میں جیا نہیں جاتا
زہرِ جدائی تو اب پیا نہیں جاتا
ہو ئے ہیں دیوار و در شکستہ بدن کے
اب تو سنو سانس بھی لیا نہیں جاتا
رہتے ہیں کچھ لوگ اب کنول کی طرح سے
ہم سے تو کیچڑ میں اب رہا نہیں جاتا
جلتا رہا حسرتوں کی آگ میں یارو
کوئلہ دِل سے اب اور جلا نہیں جاتا
خوب ہی دوڑے ہیں تیرے عشق میں دِلبر
کیا کریں اب ہم سے تو دو ڑا نہیں جاتا
بھولنا تو وقت کی ہے ریِت حسن جی
مر نے وا لوں پر سدا رو یا نہیں جاتا

0
58