سُنی تھی بچپن میں اک کہانی، کہ آئے گی ایک دن جوانی
کھِلیں گی کلیاں، چمن سجے گا، حَسین ہو گی وہ رُت سہانی
جلیں گے اُلفت کے دیپ دل میں، رہے گا کوئی قریب دل میں
شَہَد سے شیریں کلام ہو گا، ملے گی راجہ کو ایسی رانی
سُہانے سپنے سجائے ہم نے، خوشی کے نغمے بھی گائے ہم نے
یہ دل مچلتا رہا ہمیشہ، جو رِیت اس کی رہی پرانی
مِلا مُقدر کا مُجھ کو تحفہ، گِلہ نہیں تُجھ سے کوئی مولا
گُلاب رکھتا ہے ساتھ کانٹے، یہی حقیقت کی ترجُمانی
قدم قدم پر ہیں بھید کُھلتے، با پیچ و خم کس قدر ہیں رستے
یہی سکھائے جوانی زیرکؔ، ہے آزمائش یہ زندگانی

0
3