کل پھر اک اور بشر شیرنی نے مار دیا
شہرِ آدم میں بپا حشر کا کہرام ہوا!
نقش ہر آنکھ میں تھی خوفِ اجل کی تصویر
دامِ اوہام سے باہر نہ نکلتی تقریر
مسجد و دیر کا رخ کرنے لگے پیر و جواں
خستہ مندر کا بھی اندر ہوا مشعل سے عیاں
فکرِ فردا میں تو مشغول ہوئے دنیا پرست
یاد آنے لگا دیں داروں کو میثاقِ الست
یا الٰہی! یہ عذابِ غم و حسرت کیوں کر؟
ہم نے کیا جرم کیا؟ ایسی سزا کیوں ہم پر؟
دشت میں تب تھا بپا ایک نرالہ منظر!
ہرنیاں خوش تھیں کہ اس بار پھر انسان مرا
چلو اک دن کو سہی، قہرِ خدا ہم سے ٹلا

2
284
(ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے طبقات اور تضادات پر ایک تبصرہ)

0
صھیح بات ہے۔ کسی پہ عذاب کسی پہ رحمت ہوتا ہے