دسترس کسے جاناں کب ہے پیار میں رکھنا
اضطرابیِ دل کو اختیار میں رکھنا
عشق کی یہ قسمت ہے حسن کی یہ فطرت ہے
انتظار میں رہنا انتظار میں رکھنا
سادگی ہے یہ دل کی اور کمال ہے اس کو
اعتبار کر لینا اعتبار میں رکھنا
بند سارے پاؤ گے واپسی کے سب رستے
سوچ کر قدم یارو کوئے یار میں رکھنا
یہ تو ہر زمانے کی ریت اک پرانی ہے
فرد فرد لوگوں کو بے شمار میں رکھنا

0
51