غزل |
جاں غزل میں ہو تو سننے کا مزہ ہوتا ہے |
ورنہ اک شعر کا سننا بھی برا ہوتا ہے |
پاؤ شیرینی نہ خوشبو نہ ملے ذائقہ ہی |
کچا پھل توڑ لیا جائے تو کیا ہوتا ہے |
ہم جو سنتے تھے کہ جاتے ہیں سبھی ہوش و حواس |
عشق ہو جائے تو کیا ایسی سزا ہوتا ہے |
ہم کوئی بات تکبّر سے جو کہہ دیتے ہیں |
سامنے آتا ہے جو کچھ بھی کہا ہوتا ہے |
اک حسیں کا میں فقط ذکر کیا کرتا ہوں |
کیا قصور اس میں بتا میرا بھلا ہوتا ہے |
اس کے قدموں میں چلے آتے ہیں گھائل ہو کر |
شاذ ہی تیرِ نظر اس کا خطا ہوتا ہے |
آنکھ کے اندھوں کی رکتی ہے ترقی ورنہ |
آنکھ کا پردہ تقاضائے حیا ہوتا ہے |
نشّۂ عشق کی سرشاری نہ طارق پوچھو |
مئے عرفاں کا اگر جام پیا ہوتا ہے |
معلومات