ملی جب سے تری قربت نہیں ہے
جی میں تب سے کوئی حسرت نہیں ہے
فقط تنہائیاں ہیں اور میں ہُوں
شریکِ عالمِ وحشت نہیں ہے
نہیں ایسا کہ یہ دنیا ہے خالی
بس اب کے پیار کی طاقت نہیں ہے
نہ کر پند اور مجھ کو دِل لگی کا
دوبارہ جینے کی حاجت نہیں ہے
ہر اک مجبور اس دنیا میں ہے پر
کوئی بھی چھوڑتا رغبت نہیں ہے
ستاروں کو لے کر میں کیا کروں گا
میسر چاند جب۔ حضرت نہیں ہے
ذرا سی بات پر کیوں اس کو چھوڑوں
وہ منت ہے مِری صورت نہیں ہے
تبسم سے یہ کہہ دو پھر ملیں گے
ابھی تو ملنے کی فُرصت نہیں ہے
چلا جا چارہ گر رب کے لئے تُو
سہاروں کی مجھے عادت نہیں ہے
عقیدت ہو یا پھر زیدؔی محبت
دو پر ایماں مِری فطرت نہیں ہے

0
42