جو سبھی دلوں کو رلا گیے، وہی پیرِ پیر تھے ذوالفقار
کہ جو جامِ تقوی پلا گیے، وہی پیارے میر تھے ذوالفقار
جو ملی تھی دورئ دیں جہاں، وہیں شمعِ علم جلا گیے
جو تھے دور رب سے رسول سے ، انہیں رب، رسول بتا گیے
کیا ہی دل پذیر تھی گفتگو، وہ دلوں میں جس کو بٹھا گیے
وہ خدا کی باتیں سنا گیے، وہ زُبانِ شٖیْر تھے ذوالفقار
جنہیں راہِ حق کا پتہ نہ تھا ،انہیں راہِ حق وہ دکھا گیے
کہ مرادِ علم و عمل ،ادب ،وہ دل و جگر میں بسا گیے
جو بھی مبتلائے معاصی تھے، انہیں رب کا خوف دِلا گیے
وہی نقشِ حق کا بٹھا گیے ، کیا ہی دل پذیر تھے ذوالفقار
بے سکوں کو درسِ سکون وہ، دلِ مضطرب سے پڑھا گیے
وہ خدا سے خلق کو جوڑ کر، اسے دینِ حق پے چلا گیے
کیا منور ان کو کرے بیاں،بے شمار کو وہ سجا گیے
جنہیں نقشبندی بنا گیے، وہ تو حق کے تیر تھے ذوالفقار

39