میرے عطار کی کیا عجب شان ہے
دل پریشان تھا ڈال دی جان ہے
تھی نقاہت عیاں جسم بھی ناتواں
عزم و ہمت جواں ان کی پہچان ہے
یا خدا دے شفا کاملہ عاجلہ
ذات تیری تو حَنّان و مَنّان ہے
عمرِ خضری خدا ان کو کر دے عطا
دین پر جان ان کی تو قربان ہے
مُسکراتے رہیں دل لُبھاتے رہیں
غم کے ماروں پہ تیرا یہ احسان ہے
خامہ عطار کا مثل کلکِ رضا
خوب چلتا رہے جلتا شیطان ہے
فیضِ عطار سے اہلِ حق کا چمن
لہلہاتا معطّر گُلستان ہے
گیت گاتی رہیں ہر گھڑی بُلبُلیں
قلبِ عاشق ہُوا شاد و فرحان ہے
سگ ہے زیرکؔ نکمّا سا عطار کا
بخش دے بخشنا تو تِری شان ہے

0
15