| چمن اداس ہیں اب تتلیاں کہاں جائیں |
| درخت جلنے لگے آشیاں کہاں جائیں |
| عیاں ہیں زخم جو مرہم انہیں لگا بھی دو |
| جو درد دل میں کہیں تھے نہاں کہاں جائیں |
| لگی جو آگ تھی بارش میں بجھ گئی ہو گی |
| ہمالہ دل میں ہیں شعلہ فشاں کہاں جائیں |
| وہ برف پوش پہاڑوں میں جا چھپا ہو گا |
| تو اُس کو ڈھونڈنے یہ وادیاں کہاں جائیں |
| زمیں ہے گھومتی اور دوش اُن پہ آتا ہے |
| ستارے لے کے بھلا آسماں کہاں جائیں |
| کھُلا جب ایک ہی در ہے ترا مری خاطر |
| مجھے بتا مری آہ و فغاں کہاں جائیں |
| بہار آئے تو رُخ ہو اِدھر ہواؤں کا |
| خزاں کے موسموں میں گلستاں کہاں جائیں |
| ہمارے کانوں میں آتی تو ہے صدائے حرم |
| لئے دلوں میں یہ عشقِ بتاں کہاں جائیں |
| انہیں بہشت کے ہونے پہ ہے یقیں طارِق |
| مگر گمان ہے ان کو وہاں کہاں جائیں |
معلومات