تری ہے فکر شریعت کی بیڑیاں بھی ہیں |
کچھ اپنی شومئ قسمت ہے دوریاں بھی ہیں |
۔ |
حسیں کے واسطے تحفے میں اس جنم دن پر |
حنا ہے ہار ہے ہاتھوں کی چوڑیاں بھی ہیں |
۔ |
میاں نہیں سفرِ زیست اتنا بھی آساں |
ہے راہ کانٹوں بھری اور کھائیاں بھی ہیں |
۔ |
ہم آج مل کے گزاریں یہ شب دسمبر کی |
ہوں میں بھی تم بھی ، تپش کو یہ لکڑیاں بھی ہیں |
۔ |
جہان والوں کو بس خامیاں ہی دِکھتی ہیں |
اگرچہ یار مدثر میں خوبیاں بھی ہیں |
معلومات