ذرا خواہش تو دیکھو ابنِ آدم کی زمانے میں
اسے اک پر سکوں گھر چاہیے اس قید خانےمیں
نگاہِ مردِ کامل اور کہاں تو عاصی نا فرماں
بہت ہی فرق ہے گدھ اور طوطی کے ترانے میں
ارے یہ دار کر جگ ہے میاں مت دل لگا اپنا
مری سن اب بھلائی ہوگی اس کو بھول جانے میں
میسر ہو سکوں کیسے جہانِ امتحاں میں اب
تغیر ہر لحظ جاری ہے فانی کارخانے میں
اٹھے گا پھر سے یہ دانہ زمیں سے ایک دن آخر
مگر مدت لگے گی کھیتی کو پھر لہلہا نے میں
عطا ہو تیری رحمت گر مجھے تو بخش دے مالک
کمی یا رب نہ ہو گی تیری رحمت کے خزانے میں

156