یوں ہی دیتے ہیں دلاسہ یہ زمانے والے
کب بھلا لوٹ کے آتے ہیں وہ جانے والے
بس اسی شخص نے آخر میں اٹھایا طوفاں
وہ جسے ویسے ہی سمجھے تھے زمانے والے
اب چلا جا یونہی رہنے دے ہماری باتیں
تو سمجھ سکتا نہیں اونچے گھرانے والے
یہ مرے درد کے موسم ترے آگے کیا ہیں
لفظِ کن کہہ کے جہانوں کو بنانے والے
ایک مدّت سے اندھیرا ہی اندھیرا ہے یہاں
کیوں نہیں آتے یہاں شمع جلانے والے
میں کسی اور سے کیسے ہی شکایت کرتا
میرے اپنے تھے مجھے زہر پلانے والے
شاعری دردِ جگر سوزِ نظر سازِ ہنر
سن لیں یہ لوگوں کے اشعار چرانے والے
تیری دہلیز پہ خاموش کھڑا ہے طالب
اور اس کو تکے جاتے ہیں زمانے والے

0
36