مرے خوابوں کی اب تک بھی حقیقت مل نہیں پائی
کہاں جا کے کوئی سوئے کہ خوابوں سے بچا جائے
یہ جو اب رات دن مجھ پر ہی حاوی ہیں کروں تو کیا
بتا کیسے کہ تیری ساری یادوں سے بچا جائے
کرو کچھ دم، کرو تاویز، ہو گا کوئی حل تو نا
کہ جو لٹکی ہوئی سر پر ہیں تیغوں سے بچا جائے
بناؤں کس جگہ جا کر میں اپنا آشیاں مولا
کہ دنیا کے یہ ان جھوٹے خداؤں سے بچا جائے
گزر جاتی ہے جاگے میں، انہیں دیکھے میں شب میری
نہیں معلوم کیسے ان ستاروں سے بچا جائے

0
24