آج بادل برس رہا ہے، مری تقدیر کی مانند
دل کی حالت ہو گئی ہے، تری تعبیر کی مانند
زندگی کا ہر اک خواب تھا اک کھیل کی صورت
اور ہر کھیل تھا وقت کی تسخیر کی مانند
کون سا زخم دکھاؤں کہ سبھی چھپ کے جلے ہیں
میرے سینے میں ہے آگ بھی تصویر کی مانند
میری تنہائی میں شور ہے آوازوں کا ایسا
جیسے سناٹا ہو ایک تقریر کی مانند
تیرگی کے سفر میں جو مجھے ساتھ ملا تھا
وہ بھی نکلا تھا اک شخص زنجیر کی مانند
میرے ہر سوال پر چپ رہا وہ شخص ہمیشہ
اس کا ہر جواب تھا تقدیر کی مانند
اب کوئی چارہ نہیں درد کے حصّے سے باہر
زندگی ہو گئی حیدرؔ مری تعبیر کی مانند

0
10