ماضی کے جھروکوں سے نکل جائیں تو اچھّا
صدمات کے نشتر سے سنبھل جائیں تو اچھّا
جس آگ نے ہر بار جلایا ہے تن و توش
اس آگ میں اک بار ہی جل جائیں تو اچھّا
حالات کے دھاروں کو بدلنا نہیں آساں
اب سوچا ہے ہم خود ہی بدل جائیں تو اچھّا
جو تم نے کہا مجھ سے جو مَیں نے سنا تم سے
اک دوجے کی باتوں کو نگل جائیں تو اچھّا
جن پھولوں کی رنگت ہے نہ شوخی نہ نظارہ
مالی نے کہا اُن کو مسل جائیں تو اچھّا
غیبت کا جو طوفان اُٹھا رکھّا ہے سب نے
بہتر ہے اسی آگ میں جل جائیں تو اچھّا

0
81