| تھکے ہوئے سے ہم، الجھی ہوئی سی زندگی |
| بکھرے ہوئے خیال، بگڑی ہوئی سی زندگی |
| یادوں کے بے شمار دُکھ، نیندوں کے کارواں |
| ٹوٹے ہوئے سے خواب، بیتی ہوئی سی زندگی |
| پلکوں پہ اوس بن کے جو ٹھہرے تھے کچھ سراب |
| بجھتی ہوئی سی شام، ڈوبی ہوئی سی زندگی |
| خوابوں کے سب دیے تو ہوا نے بجھا دیے |
| مدھم چراغ سی، تھر تھرائی ہوئی سی زندگی |
| زیدی! یہ وقت بھی کسی دن سنور تو جائے گا |
| اب تو فقط ہے رنج، سہمی ہوئی سی زندگی |
معلومات