کبھی ہم نہ دل سے لگائے گئے
ہمیشہ نظر سے گرائے گئے
یہ شکوہ بجا ہے کہ ناراض تھے
مگر ہم نہ تجھ سے منائے گئے
ہوا تھا ہمارا بھی عہدِ وفا
یہ وعدے مگر کب نبھائے گئے
جہاں بے وفاؤں کی باتیں چھڑیں
تو قصے تمہارے سنائے گئے
یہ اشعار سب خود ہی بنتے گئے
فقط ہم قلم کو چلائے گئے
ندامت ہوئی میرے قاتل کو تب
کہ سر جب ہمارے کٹائے گئے
اسامہؔ کو لوگوں نے سمجھا مگر
جنازے ہمارے اٹھائے گئے

195