کبھی ہم نہ دل سے لگائے گئے |
ہمیشہ نظر سے گرائے گئے |
یہ شکوہ بجا ہے کہ ناراض تھے |
مگر ہم نہ تجھ سے منائے گئے |
ہوا تھا ہمارا بھی عہدِ وفا |
یہ وعدے مگر کب نبھائے گئے |
جہاں بے وفاؤں کی باتیں چھڑیں |
تو قصے تمہارے سنائے گئے |
یہ اشعار سب خود ہی بنتے گئے |
فقط ہم قلم کو چلائے گئے |
ندامت ہوئی میرے قاتل کو تب |
کہ سر جب ہمارے کٹائے گئے |
اسامہؔ کو لوگوں نے سمجھا مگر |
جنازے ہمارے اٹھائے گئے |
معلومات