آندھی ایسی کیا چلی، ابواب اڑنے لگ گئے
گھر کے جتنے بھی تھےسب احباب اڑنے لگ گئے
جو لکیریں کاغذوں میں بھاری تھیں وہ بچ گئیں
آندھی میں سب نقطے اور اعراب اڑنے لگ گئے
اس قدر وحشی نہ جانے وہ کہاں سے لائے تھے
بیلوں کے ٹھڈوں سے تو قصاب اڑنے لگ گئے
اپنے اپنے قطب میں کر کر کے گردش تھک چکے
بیٹھ کر طیاروں میں مہتاب اڑنے لگ گئے
جب خبر پھیلی اِدھر اقبال کے شاہیں بھی ہیں
تو سبھی شاہیں سوئے پنجاب اڑنے لگ گئے

12