غزل
جس کے قبضے میں ہیں دل ، ایسا وہ ساحر بھی ہے
سانپ کو رسّی بنانے کا وہ ماہر بھی ہے
ہنستے ہنستے وہ رُلا کر ہے دلوں کو دھوتا
وہ جو اطہر بھی مطہّر بھی ہے طاہر بھی ہے
وہ مسیحا بھی ہے استاد بھی ہے عالم بھی
وہ جو منصور بھی ہے دین کا ناصر بھی ہے
وہ جو تقریر فسوں خیز کرے دل جیتے
نثر میں ہی نہیں تحریر ، وہ شاعر بھی ہے
اس کے جذباتِ محبّت سے پگھلتے دل ہیں
ایک دنیا ہے ، سمجھنے سے جو قاصر بھی ہے
خیرہ ہوتی ہیں نگاہیں جو نظر اس پہ پڑے
حسن اس کا نہیں اندر ہی وہ باہر بھی ہے
رعب سے دی گئی نصرت اسے ہر گام پہ ہے
ہر قدم فتح ملی اس کو جو ظاہر بھی ہے
معجزے آنکھوں سے دیکھے جو دکھائے اس نے
تھا دعاؤں میں اثر پہلے بھی ، آخر بھی ہے
طارق آتا ہے جو ٹی وی پہ تو ایسا ہی لگے
حق کا پیغام سدا دینے کو حاضر بھی ہے

0
6