ملی ثنا حبیب کی ترانہ مل گیا
گزار دیں گے زندگی بہانہ مل گیا
ہے آخری ٹھکانہ گر مدینہ میں ملا
یہ جان لیں کہ خلد کا نشانہ مل گیا
یہ چھوڑ کر نہ آئیں گے گلی طبیب کی
وطن مدینہ پاک ہے یگانہ مل گیا
نبی پہ وار دیں گے ہم نعیمِ دو سریٰ
یہ دیکھ لیں گے دو جہاں فسانہ مل گیا
ہو جان و دل لبیب کے عیال پر نثار
جو مصطفی سے آل ہے گھرانہ مل گیا
ہے گلشنِ منیب ہی حسین دہر میں
جسے جمالِ دو سریٰ سے خانہ مل گیا
جو عترتِ رسول کا غلام بن گیا
وہ جان لے بہشت میں ٹھکانہ مل کیا
ملیں گے پھر تمہیں سدا وہ وحدتوں کے جام
جو قربتِ رسول کا مے خانہ مل گیا
یہ دوراں پھر حیات میں زماں ہے نور کا
جو یار کے دیار میں زمانہ مل گیا

18