لے کے جاتا ہے زمانہ کس طرف ، گردش لئے
روٹھ کر ہم سے چلا جائے نہ وہ رنجش لئے
وہ اترتا ہے زمیں پر نیم شب یہ دیکھنے
کون سجدے میں پڑا ہے دید کی خواہش لئے
اس کی رحمت پوچھتے ہو کیا، بس اتنا جان لو
ہر گھڑی بادَل رکھے سر پر جو ہیں بارش لئے
دیکھ کر چہرے پہ اطمینان میرے، خوش نہیں
جل گئے حاسد مرے ، سینے میں یوں آتش لئے
راز داں جس کو بنایا تھا وہی دشمن ہوا
وہ کچہری میں بھی جا پہنچا کوئی نالش لئے
کوئی ملّا ہو یا منصف سوچ اس کی ایک ہے
مال کب آتا ہے دیکھے ہاتھ میں خارش لئے
ڈھونڈنے جائیں گے مجنوں کو کبھی سوچا تھا پر
پھر خیال آیا نہ سمجھے ، آ گئے دانش لئے
طارق اب ایسا زمانہ آگیا ہے دہر میں
لوگ پھرتے ہیں یہاں گردن کی پیمائش لئے

0
41