کُھلے اُس گھر کے رستے تو رہے ہیں |
مصیبت میں بھی ہنستے تو رہے ہیں |
بہاروں کا کریں ہم ذکر کیا کیا |
خزاؤں میں پنپتے تو رہے ہیں |
ستارہ آسماں پر کوئی ٹوٹا |
یہاں بادل گرجتے تو رہے ہیں |
چھلک کر اشک پلکوں سے گرا جو |
اُسی موتی کو تکتے تو رہے ہیں |
فلک پر چھائے ہیں جو ابر غم کے |
زمیں پر وہ برستے تو رہے ہیں |
ہوئے ہیں بے قرار اب دوست ان کے |
وہ ملنے کو ترستے تو رہے ہیں |
کریں تعریف کیا اُس کے سُخن کی |
سب اس کے شعر پڑھتے تو رہے ہیں |
فرشتے لے گئے قدسی کو آخر |
ہمیں تیّار کرتے تو رہے ہیں |
معلومات