کُھلے اُس گھر کے رستے تو رہے ہیں
مصیبت میں بھی ہنستے تو رہے ہیں
بہاروں کا کریں ہم ذکر کیا کیا
خزاؤں میں پنپتے تو رہے ہیں
ستارہ آسماں پر کوئی ٹوٹا
یہاں بادل گرجتے تو رہے ہیں
چھلک کر اشک پلکوں سے گرا جو
اُسی موتی کو تکتے تو رہے ہیں
فلک پر چھائے ہیں جو ابر غم کے
زمیں پر وہ برستے تو رہے ہیں
ہوئے ہیں بے قرار اب دوست ان کے
وہ ملنے کو ترستے تو رہے ہیں
کریں تعریف کیا اُس کے سُخن کی
سب اس کے شعر پڑھتے تو رہے ہیں
فرشتے لے گئے قدسی کو آخر
ہمیں تیّار کرتے تو رہے ہیں

0
13