یہاں جو کچھ ہُوا ہے وہ ہَوا کو سب پتا ہے
عجب خوشبو سی پھیلی ہے کہ جیسے دل جلا ہے
بہت آنسو بہے ہیں پر یہ مٹی خشک کیوں ہے
مری آنکھوں کا پانی اس ہوا نے ہی پیا ہے
ہوا رک جاؤ تھوڑی دیر یہ دشمن نہ سن لے
کہ تازہ زخم سینے کا ابھی خود ہی سیا ہے
سنا کے ماں کی لوری اب مجھے پکا سلا دے
ہوا محفوظ رکھتی ہے صدا میں نے سنا ہے
لپیٹے سرمئی چادر ابھی بادِ صبا ہے
چراغِ سحر تھوڑی دیر پہلے ہی بجھا ہے
ہوا میں آگ ہے اور صور کی آواز بھی ہے
ہوا ہی ابتدا تھی اب ہوا ہی انتہا ہے
ق
جہاں میں رونقیں ساری ہوا کی مہربانی
جسے ہم روح کہتے ہیں وہ کیا ہے بس ہوا ہے

0
38