درد بڑھ کر عیاں نہ ہو جائے
فیصلہ پھر یہاں نہ ہو جائے
وہ جو کہنے لگا ہے اپنا مجھے
مجھ سے پھر بدگماں نہ ہو جائے
سی لیے لب مگر نگاہوں سے
جو چھپایا بیاں نہ ہو جائے
عمر بھر ساتھ کون دیتا ہے
ہم سے کوئی زیاں نہ ہو جائے
راہ الفت پہ تو سنبھل کے چل
نقش دل پر نشاں نہ ہو جائے
صاحبہ تھام لیجئے آنچل
حسن پھر سے نہاں نہ ہو جائے
شور سن کر جفا کا٫ بادہ کش
اب مکیں لا مکاں نہ ہو جائے
میں نے دل کو سنبھالا ہے پھر سے
آرزو اب دھواں نہ ہو جائے
اس کو ایسے نہ دیکھو تم ساغر
عشق پھر سے جواں نہ ہو جائے

0
197