اکیلا چلا تھا اکیلا کھڑا ہوں |
کمر بستہ تھا تو, ترا قافلہ تھا |
بچھڑ کر مجھے بھی سکوں مل گیا ہے |
محبت سے مجھ کو بڑا واسطہ تھا |
ملا کیوں رقیبوں میں تو بھی ستم گر |
مجھے اک ترا ہی تو بس آسرا تھا |
ڈبوئی اسی نے ہی نیّاں ہماری |
ہماری نظر میں جو اک ناخدا تھا |
چلے تھے جہاں ہم ملا کر وہ شانے |
عجب اک گلی تھی عجب راستہ تھا |
محلے ہمارے میں اک دلنشیں تھی |
اسی سے تو الفت کا اک سلسلہ تھا |
زمانہ نہیں تھا مرا پر مجھے کیا |
مجھے آسرا تھا کہ تو تو مرا تھا |
محبت نظر تک ہی محدود تھی بس |
محبت کا اپنی خدا بھی گواہ تھا |
معلومات