زخم و مرہم میں شناسائی کہاں سے آئی |
مرنے والے کو مسیحائی کہاں سے آئی |
عاشقوں کو کہاں عزّت سے بٹھایا جائے |
ان کی قسمت میں پذیرائی کہاں سے آئی |
وقتِ رُخصت ہے تو یوں لوگ ہیں رنجیدہ کیوں |
پھر کسی ہاتھ میں شہنائی کہاں سے آئی |
تیری محفل بڑی آباد ہوا کرتی تھی |
راس پھر تجھ کو یہ تنہائی کہاں سے آئی |
لوگ سر دھُنتے ہیں تقریر پہ تیری کیونکر |
یہ بتا تجھ کو یہ گویائی کہاں سے آئی |
تجھ سے اٹھا بھی نہ جاتا تھا کہ جب وہ آئے |
لوگ کہتے ہیں توانائی کہاں سے آئی |
مجھ سے یہ اہلِ سُخَن پوچھتے ہیں جانے کیوں |
تجھ کو یہ قافیہ پیمائی کہاں سے آئی |
آسماں کی ہے کوئی خاص عنایت طارق |
ورنہ قسمت میں یہ رُسوائی کہاں سے آئی |
معلومات